سید عتیق الحسنء، سڈنی آسٹریلیا ،کے قلم سے؛
حالیہ برسوں میں، پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں ایک پریشان کن رجحان نے جڑ پکڑ لیا ہے – محفوظ اور بہتر مستقبل کی تلاش میں پاکستان کا نوجوان آج پاکستان سے غیر معمولی تعداد میں بیرونِ ملک جا رہا
ہے۔ موجودہ سال کے پہلے سہ ماہی میں دو لاکھ پاکستانی نے پاکستان کو خیر آباد کہہ دیا۔اگر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تو چند سالوں میں پاکستان میں اعلی تعلیم یافتہ، ہنر مند اور ذہین افراد پاکستان میں ناپید ہو جائیں گے۔
پاکستانی معاشرے میں بے چینی کا مروجہ احساس اب بے مثال سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ملک کی معاشی حالت سب سے نچلی سطح پر ہے، اور نظم و نسق کے تانے بانے نظامی مسائل سے متاثر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ریاستی امور کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے جن کا ماضی اور حال بدمعاشی، بد عنوانی، منی لانڈرینگ ، اور ملک کی دولت کو لوٹنے کے جرم میں ملوث ہے۔ یہ طبقہ جس نے پاکستان کی ریاست کو اپنے قبضہ میں کیا ہوا ہےپاکستانی عوام کا زندہ رہنا مشکل کر دیا ہے۔ مجبوراً پاکستان کا اعلی تعلیم یافتہ ، ہنر مند اور نوجوان اپنے اثاثہ بیچ کر پاکستان سے کسی نہ کسی طرح سے ملک سے نکلنے پر مجبور ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان انُ ممالک میں شمار ہوگا جنہیں کرائم کی دنیا میں شمار کیا جاتاہے۔
اس سنگین صورت حال پر میرے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ کیا اگر ہمارے آباؤ اجداد پاکستان کی موجودہ صورتحال کا اندازہ لگا سکتے تو کیا وہ بھی یہی انتخاب کرتے؟ کیا وہ ہندوستان میں اپنا صدیوں پرانا ورثہ ، اثاثے اور جدی پشتوں کی آبائی سرزمین چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنے کا انتخاب کرتے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو خود پرکھنے اور ہمارے اجتماعی ضمیر کے مخلصانہ امتحان کا متقاضی ہے۔
میرے بزرگوں نے ہندوستان کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ کر اپنا ورثہ، اثاثے، زمین چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی۔ پھر پاکستان میں دوبارہ سے نا صرف اپنے آپ کو کھڑا کیا بلکہ جس جگہ قیام کیا اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ آج سے چالیس دھائیوں پہلے جب میں اور میری نسل کے افراد جیسے تیسے اپنی تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں آئے تو چاروں طرف اپنے آپ کو دوسرے درجہ کا شہری پایا۔ عام آدمی کی لنترانیا ں تو ایک طرف پاکستان کے نام نہاد قائدین نے میرے طبقہ کو ہندوستانی کہ کر پکارا۔ میرے طبقہ کی معاشی، سماجی اور بنیادی آزادی پر قدغن نظر آنے لگی ۔ بالآخر میں اور میرے جیسے ہزاروں اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند دوسری نسل کے افراد نے مجبوراً ترقی یافتہ ممالک کی طرف رخ کیا۔ میں نے آج سے پینتیس سال پہلے آسٹریلیا میں مستقل سکونت حاصل کی آسٹریلیا کو اپنا اور اپنی نئی نسل کا گھر بنالیا۔ گو کہ یہ میرا اولین پسندیدہ فیصلہ نہیں تھا مگر معاشی آزادی اور بنیادی حقوق عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے نا گزیر ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور میری نئی نسل جو میری نسل سے زیادہ کرب میں مبتلا ہےپاکستا ن سے ہجرت کرنے کے لئے بے تاب ہے۔
واضح مایوسی جو نوجوان نسل کو بیرون ملک مواقع تلاش کرنے پر اکساتی ہے، ملک کی سرحدوں کے اندر درپیش چیلنجوں کا ثبوت ہے۔ معاشی بدحالی اور حکمرانی کے مسائل نے غیر یقینی اور عدم استحکام کی فضا پیدا کر دی ہے۔ جوں جوں نوجوان اپنے مستقبل پر غور کرتے ہیں، غیر ملکی ساحلوں کی طرف جو کہ حفاظت اور سلامتی کا وعدہ کرتی ہے، تیزی سےانِ مایوس پاکستانی نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔ روشن ترین ذہنوں اور صلاحیتوں کے حامل افراد کا پاکستان چھوڑنے کا موجودہ غیر معمولی رجحان اس ِ بات عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کا اسِ اخراج سے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہو نگے؟ ہجرت کا عمل، اگرچہ ضرورت سے پیدا ہوا، درحقیقت پاکستانی معاشرے کی پائیداری کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے نامور صحافی حامد میر سے پاکستان کے بدنام ترین مگر چالاک سیاستدان آصف علی زرداری سے پوچھا کہ آج تعلیم یافتہ اور ہنر مند طبقہ پاکستان چھوڑ کر جارہا ہے تو آپ اور آپ کی جماعت کے پاس اس کو روکنے کا کیا پلان ہے تو موصوف جواب دیتے ہیں اگر کوئی جاتا ہے تو جائے، اگر وہ باہر جائیں گے تو پاکستان میں انکے ذریعہ ترسیلات زر بھی تو آئے گا۔ افوس یہ ہیں وہ مافیا جن کے قبضہ میں پاکستان کی ریاست ہے! کیا پاکستان کی معیشت ہمیشہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی کمائی سے ہی چلتا رہے گا اور کب تک۔ میں اگر پاکستان پیسے بھیجتا ہوں تو اس بات کو کیا ضمانت ہے کہ میری اولاد جو یہاں پروان چڑھی ہے کیا وہ بھی میرے جذبہ کی طرح پاکستان کو مالی مدد کریگی؟ کیا کسی پاکستان کے لیڈر نے کبھی اس پر سوچاہے؟ غیر ملکی ترسیلات میں پہلے متواتر کمی آرہی ہے اور اسِ میں مزید اضافہ ہوگا۔
مزید یہ کہ یہ پاکستانیوں کو اس بے چینی کی بنیادی وجوہات پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا یہ صرف معاشی حالات ہیں جو ہمارے نوجوانوں کو پاکستان سے دور کر رہے ہیں یا پھر ریاست کی بد حالی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے انُ لوگوں کا جو پاکستان کو مزید تقسیم کرکے اپنے اپنے حصوں کے مالک بننے کی دوڑ میں شامل ہیں! شاید سیاسی منظر نامہ کا ایک جامع جائزہ اور اس کی خامیوں کو دور کرنے کا پختہ عزم ایک روشن مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ مگر یہ کام کریگا کون؟ اور کون اسے کرنے دیگا! کون عوام کو انقلاب کے لئے سڑکوں پر لائے گا اور کون لانے دیگا؟ آج جذبات کو ایک طرف رکھ کر سوچیں تو شاید اب اس کا جواب آپ کو خوف میں مبتلا کر دیگا۔
جب ہم اعلی تعلیم یافتہ، ہنر مند اور نوجوانوں کے پاکستان چھوڑنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کا مشاہدہ کرتے ہیں جو کہ ناقابل یقین شرح کے ساتھ بڑھ رہا ہےتو یہ وہ لمحہ ہے جو پاکستانیوں سے سوال کرتا ہے کہ
ہمارے آباؤ اجداد نے کیا انتخاب کیا تھا اور کیا حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلے کیے ہوں گے۔ یعنی اس صورت حال پر غور کرنے سے یہ حیرت ہوتی ہے کہ اگر ہمارے بزرگ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ سکتے تو کیا وہ اپنی آبائی سرزمین چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنے کا انتخاب کرتے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو خود پرکھنے اور ضمیر کے مخلصانہ امتحان کی دعوت دیتا ہے۔
یہ ہمیں ایک ایسے پاکستان کے لیے اجتماعی طور پر جدوجہد کرنے کا اشارہ کرتا ہے جہاں ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے غیر ملکی سرزمینوں کا لالچ ہی واحد سہارا نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا ملک ہے جو اپنی سرزمین پر اپنی صلاحیتوں اور امنگوں کو نکھارتا ہے۔ مستقبل کی تشکیل کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے جہاں پاکستان محض روانگی کی جگہ نہیں بلکہ ایک ایسی منزل ہے جو امید اور مواقع کو تحریک دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آسمان چھوتی مہنگائی، معاشی بدحالی، بدعنوانی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری تعلیم یافتہ،ہنر مند افراد اور نوجوانوں کو بیرون ملک مواقع تلاش کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ پاکستانیوں کی کریم کی ریکارڈ توڑ ملک چھوڑنے کی بھاگ دوڑ پاکستان کے تاریک مستقبل کی نشان دہی کرتا ہے۔
اپنے قیام کے صرف 25 سالوں میں، پاکستان ناانصافیوں، امتیازی سلوک، غیر جمہوری رویوں اور غیر متوازن حکمرانی سے دوچارہو گیا تھا جس نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرکے بنگلہ دیش کو جنم دیا۔ بدقسمتی سے وہی آمرانہ طرز حکمرانی برقرار ہے اور آج پاکستان کا باقی ماندہ حصہ ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کی طرف گامزن دکھائی دیتا ہے۔تو دوسری جانب ملک کے اعلی صحافیوں، دانشوروں، تجزیہ نگاروں کی زبانیں بند کردیں گئیں ہیں۔ پاکستان کے میڈیا پر سخت قسم کا جبر ہے جو پہلی مرتبہ نہیں نافظ کیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ لیاقت علی کی شہادت، فاطمہ جناح کی پراسرار موت، ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، بے بظیر بھٹو کا ایجنسیز کے ہاتھوں بہیمانہ قتل، پھر نامور دانشوروں، صحافیوں ، پروفیسروں اور محب وطن سرگرم سیاسی شخصیات کے گرد زمین تنگ کرکے یا تو انکا قتل کرنا، یا انکو غائب کرکے ٹارچر کرنا اور یا پھر پاکستان چھوڑنے پر مجبور کرنا یہ پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کا سلسلہ پچھلے ستر سالوں سے جاری ہے۔
پاکستان کے معاشی چیلنجز اور سماجی و سیاسی تحفظات، موجودہ منظر نامے میں، پاکستان غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرتا ہے، یہ صورتحال بلند شرح سود کے بوجھ کی وجہ سے ابتر ہے۔ اگلے تین سالوں میں 80 بلین ڈالر کی زبردست واپسی کی فوری ضرورت ملک کی مالی استحکام کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتی ہے۔ پریشان کن طور پر، حکومت کی طرف سے استعمال کی جانے والی اہم مالیاتی حکمت عملی مزید قرضوں کے حصول کے ارد گرد نظر آتی ہے، یہ ایک غیر یقینی راستہ ہے جو بالآخر مکمل طور پر اقتصادی و معاشی تباہی کا باعث بنے گا۔
اس معاشی پریشانی کا ایک پریشان کن پہلو پاکستان کی کرنسی کی قدر میں کمی ہے، غیرمعمولی اور شرمناک طور پر نچلی سطح تک کرنسی کا پہنچ جانا، یہاں تک کہ افغانی، بنگلادیشی اور نیپالی کی قدر سے بھی گر جانا پاکستانی ماہرین معیشت کے لئے شرم کا باعث ہے۔ یہ بدقسمتی کی صورت حال سامنے آنے والے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کی انقلابی اصلاحات کی نشاندہی کرتی ہے مگر پھر بات وہیں آجاتی ہے کہ یہ کریگا کون، یہ لٹیرے جن کے ہاتھوں میں ملک جکڑا ہوا ہے اور جنہوں نے اپنے غلیظ منصوبوں کے ذریعہ پاکستان کی مالی حیثیت یہاں تک پہنچائی ہے۔
یہ تشویشناک پہلو سیاسی اشرافیہ کی قوم کی ابتر حالت کے بارے میں واضح بے حسی ہے۔ ان میں سے بہت سے لیڈروں کے پاس کافی غیر ملکی اثاثے اور پاسپورٹ ہیں، جو ملک کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی وابستگی کے بارے میں خدشات پیدا کرتے ہیں۔ مکمل حکومتی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں ان افراد کی ممکنہ پرواز ملکی استحکام پر گہرا سایہ ڈالتی ہے۔
معاشی مشکلات میں اضافہ قومی بجٹ میں فنڈز کی غیر متناسب مختص کرنا ہے۔ فوج کے لیےسب سے زیادہ بجٹ کا کافی حصہ مختص کرنا، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور ضروری خدمات میں سرمایہ کاری کو پیچھے چھوڑنا، حکومت کی ترجیحات پر سوال اٹھاتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں آبادی کا تقریباً نصف حصہ 22 سال سے کم عمر کا ہے، وہاں تعلیم پر بجٹ کا صرف پانچ فیصد مختص کیا جاتا ہے اسُ ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟
مزید برآں، مہنگائی کی موجودہ شرح، جو 30 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، عوام کی مالی بہبود کے لیے شدید خطرہ ہے۔ روزگار کی سنگین صورتحال اور چھوٹے کاروباروں کی مایوس کن حالت عام شہریوں کو درپیش چیلنجوں کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ بنیادی ضروریات کو برداشت کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، دن میں دو وقت کا کھانا حاصل کرنے سے قاصر ہے، دوسری جانب ملک کی اشرافیہ اور حکمرانوں کی عیاشیاں کسی امیر ترین ملک سے کم نہیں!
ان کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور اسٹریٹجک نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ پالیسی سازوں کو بجٹ کی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے، معاشی نمو کو فروغ دینا چاہیے، اور عام شہریوں کو درپیش بوجھ کو کم کرنے کے لیے اقدامات پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔ ان مسائل کو فوری طور پر حل کرنے میں ناکامی نہ صرف پاکستان کے معاشی استحکام کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ سماجی عدم مساوات اور آبادی میں عدم اطمینان کو مزید گہرا کرنے کا بھی خطرہ ہے۔
(مضمون نگار سڈنی میں مقیم صحافی، سیاسی تجزیہ کار اور کمیونٹی کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل پتہ shassan@tribune-intl.com ہے)