بقلم سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
حکمران مافیا منصوبہ بندی کے تحت کرپٹ اور نا اہل افراد کو اقتدار میں لا رہی ہے
۸ فروری کے انتخابات میں تحریک انصاف کے نامزد آزاد امیدواروں کی اکثریت میں جیت کے باوجود حکمران مافیا کی منصوبہ بندی میں کوئی جھکائو نہیں آیا ہے۔ جیسا کہ میں ایک عرصہ سے اپنے آرٹیکلز ، وی لاگس اور پوسٹس میں ذکر کرتا رہا ہوں کہ حکمران مافیا اپنے غیر ملکی آقائوں کے ناپاک ارادوں کی تکمیل کرنا چاہتی ہے جس کے لئے یہ مافیاپاکستان کی سالمیت کو بھی قربان کرنے کو تیار ہے، جیسا کہ ۱۹۷۱ میں کیا گیا۔
یہ حکمران مافیا، جس میں پاکستان کے مقتدر ادارے، خفیہ ایجنسیاں، عدلیہ ، بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے روپ میں کرپٹ اور نا اہل عناصر شامل ہیں، میں انہیں ایک کمپنی سمجھتا ہوں، اور یہ کمپنی پاکستان کو اپنی ملکیت سمجھتی ہے۔خفیہ ایجنسیاں کسی بھی ملک میں اندرونی اور بیرونی سازشوں پر نظر رکھتی ہیں اور حکام اعلی کو آگاہ رکھتی ہیں۔
۱۹۵۰ سے برطانیہ اور پھر امریکہ کے آقائوں کے اشارے پر پاکستان کے اعلی اور محب وطن سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں کا کمپنی سفایا کرتی آئی ہے۔ آج جو کچھ بھی روزانہ کی بنیاد پر ہورہا ہے یہ کمپنی کا ایجنڈا ہے جس کے لئے اگر پاکستان ٹوٹتا ہے تو ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ کرائے کے قاتل ہیں جس کے لئے یہ اپنے آقائوں سے قیمت وصول کرتے ہیں۔
میں انکے کئے گئے گناہوں اور مجرمانہ فیل کی تفصیل یہاں ایک مرتبہ پھر بیان نہیں کرونگا کیونکہ آج پاکستان کے بچے بچے پر اسِ کمپنی کے کرتوں کے جرائم افشاں ہو چکے ہیں۔ آج پاکستان کے ہر صوبہ، شہر، گائوں اور دیہاتوں میں ان پڑھ سے لیکر پڑھے لکھے لوگ انِ کی حقیقت جان گئے ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا اور پاکستانیوں کے عمران خان کی قیادت میں احتجاج نے کمپنی کو انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا۔ اسِ مافیا نے ہر ممکن کوشش کی کہ انتخابات میں تاخیر جاری رکھی جائے اور ایک نا اہل نگراں حکومت سے ملک کو اپنی آمریت سے چلایا جائے۔
غیر ملکی انسانی حقوق کی تنظیموں ، عالمی میڈیا کی خبروں، تجزیوں اور جمہوری ممالک کے لیڈروں کے پریشر کی وجہ سے بالآخر الیکشن کو ۸ فروری کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔
انتخابات میں تاخیر ، ایک غیر آئینی حکومت کو پاکستان میں مسلحط کرنا غرض کہ ہر ممکن کوشش کی گئی، ہر غیر قانونی ہتھ کندہ استعمال کئے گئے کہ عمران خان اور تحریک انصاف جماعت (پی ٹی آئی) کو پاکستان کی سیاست سے باہر رکھا جائے اور انتخابات میں شریک ہونے سے روکا جائے مگر پاکستان کی محب وطن عوام ڈٹ گئی۔ پھر ۸ فروری کو بالآخر انتخابات ہوئے۔ پہلے تو کوشش کی گئی کہ غیر ملکی میڈیا اور بین الاقوامی آبزورز کو پاکستان نہ آنے دیا جائے۔ مگر پھر غیر ملکی پاکستانیوں نے بھرپور مہم سازی اور سوشل میڈیا کی مدد سے عالمی اداروں کو حکمران مافیاکی ممکنہ ہونے والی دھاندلی کے بارے میں بتایا گیا ۔ خیر حالتِ مجبوری اور عالمگیر بدنامی کے خوف سے عالمی میڈیا ، بین الاقوامی آبزرور کے نمائندوں اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے نمائندوں کو پاکستان آنے کے لئے آخری وقت میں ویزے جاری کئے گئے۔ عالمی میڈیا اور بین الاقوامی الیکشن آبزرورز اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ۸ فروری کے الیکشن سے چند روز قبل، الیکشن والے دنِ اور بعد میں اب جو کچھ ہورہا ہے بین الاقوامی میڈیا نےسرخیوں میں حکمران مافیا کی غیر انسانی سلوک اور پاکستانیوں کے ووٹ کے بنیادی حق کو پامال کرنے کی خبریں شائع کیں جو آج بھی جاری ہیں۔ مگر نگران حکمران مافیا اور کمپنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے سر پر پاکستان کے دشمن اور عالمی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ کمپنی کو اپنے آقائوں کےایجنڈے کو پورا کرنا ہے۔ اسِ کے لئے انتخابات کے نتائج کو بالا طاق رکھ کر، عدالتوں سے ناجائز فیصلے کراکے ، محب وطن سیاسی ورکرز لیڈرز، صحافیوں اور دانشوروں پرظلم و تشدد کی انتہا کرکے اب انُ لوگوں کو جعلی قومی اور صوبائی حکومتوں میں لایا جا رہا ہے جن سے پاکستان اور اسلام کے نظریہ کے خلاف کام کروانا ہے۔ کشمیر پر بھارت سے سودا کرنا ہے، فلسطین کو تسلیم کرنا ہے، قادنیوں انکے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت دینی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا ہے۔ یہ وہ کام ہیں جن کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا کمپنی نے اپنے غیر ملکی آقائوں سے قیمت وصول کی ہے۔ان کے ناپاک عزائم میں اگر پاکستان کی محب وطن عوام سڑکوں پر آئی تو یہ مشرقی پاکستان کی بدترین تاریخ ایک مرتبہ پھر رقم کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔
۱۹۷۰ کے الیکشن میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ اور اسکے قائد شیخ مجیب الرحمن نے تین سو کے ایوان (خواتین کی مخصوص سیٹوں الگ تھیں )میں سے مشرقی پاکستان کی ۱۶۲ سیٹوں میں سے ۱۶۰ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ مغربی پاکستان کی ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان کی ۱۴۰ سیٹوں میں سے ۷۸ سیٹیں حاصل کی۔ پھر کمپنی نے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا اور سب سے بڑھ کر مشرقی پاکستان کی عوام اپنے دئیے گئے ووٹ کے حق حاصل کرنے کی خاطر سڑکوں پر آگئی۔ مجیب الرحمان پارلیمنٹ کا اجلاس بلانا چاہتا تھا تاکہ انتقال اقتدار جیتنے والی جماعت یعنی عوامی پارٹی کو دیا جا سکے اور پاکستان کا وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان ہو۔ مگر یہ کمپنی کو منظور نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان کی گلی کوچوں میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے اور انتقال اقتدار اکثریتی جماعت کے حوالے کرنے کی مہم چلی۔ پاکستان کی آرمی نے مشرقی پاکستان کی عوام کو سیدھی گولیاں تحفہ میں دیں۔ دس لاکھ سے زیادہ مشرقی پاکستان کے بچے، عورتیں، جوان اور بزرگ مارے گئے۔ پھر مشرقی پاکستان کی انتقال اقدار کی تحریک مشرقی پاکستان کی علحیدگی اور بنگلادیش بنانے کی تحریک میں بدل گئی۔ پاکستانی فوج کے خلاف بھرپور انداز میں مشرقی پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں جنگ لڑی گئی بھارت کی فوج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کر دیا اور بنگلادیش تحریک کے جنگجو مکتی باہمی گروپ کا ساتھ اور پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ اس مارکہ میں دس لاکھ بنگالی مارے گئے اور لاکھوں معزور ہو گئے مگر بنگالیوں نے پاکستان سے آزادی حاصل کرلی۔ یہ ہے مشرقی پاکستان اور پاکستان کی علحیدگی کی دردناک اور شرمناک داستان جو ایک مرتبہ پھر پچاس بعد دھرائی جارہی ہے۔
آج مظلوموں میں مجیب الرحمان کی جگہ عمران خان ہے اور عوامی لیگ کی جگہ تحریک انصاف ہے۔آج پھر مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کی جیسی تحریک کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بالکل وہی منظر ہے صرف وقت ، جگہ اور لوگ بدل گئے ہیں۔
آج پاکستان تحریک انصاف کے آزاد نمائندے ۸ فروری کے انتخابات میں ہر صوبے میں جیت چکے ہیں ، مگر دھاندلی کرکے انکی جیتی ہوئی اکثریتی سیٹوں کو اقلیت سیٹوں میں تبدیل کرنے کی جعل سازی الیکشن کمیشن کے بند کمروں اور عدالتوں کے ایوانوں میں جاری ہے۔ آج عمران خان پر جھوٹے مقدمے قائم کرکے اس کو جیل میں ہی رکھنے اور مارنے کی کاروائی جاری ہے۔ آج تحریک انصاف کے مرد اور خواتین سیاسی کارکن ، قائدین اور جینے والے ارکان پر ظلم ، تشدد اور غیر انسانی سلوک جاری ہے۔ کمپنی کو برداشت نہیں ہورہا کہ کس طرح سے پاکستان کی اکثریتی عوام نے تحریک انصاف کے نمائندوں کو ووٹ ڈال دئیے۔ جس طرح سے مزاحمت کرنے والے بنگالیوں کا بے دردی سے ہولناک قتل عام کیا گیاتھا، پنجاب اور کے پی کے میں بھی انِ کاروائیوں کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
سابقہ مشرقی پاکستان ، مغربی پاکستان سے ہزاروں کلو میٹر دور تھا اور درمیان میں بھارت تھا۔ جس کی وجہ سے پہلے تو مغربی پاکستان کی عوام کو مشرقی پاکستان میں ہونے والے عوامی بے چینی اور انکے حقوق کی تحریک سے بے خبر رکھا گیا، مشرقی پاکستان سے جڑی خبروں کو مغربی پاکستان کے میڈیا میں شائع ہونے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ نیز بھارت کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کی علحیدگی میں اپنی کاروائی ڈالے اور بھارت نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور مشرقی پاکستان میں فوج کے ذریعہ بنگالیوں کی علحیدگی کی تحریک کو کامیاب کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر ا مودی ڈھاکہ میں کھڑے ہوکر فخر سے کہتا ہے کہ بنگلادیش کے لوگوں کو بھارت کا شکر گزار ہونا چائیے کہ بھارت نے بنگالیوں کی آزادی کی جدوجہد میں بھرپور طریقہ سے حصہ لیا اور بنگلادیش کے قیام یو یقینی بنایا۔
آج حالات سابق مشرقی پاکستان جیسے ہی ہیں مگر فرق یہ ہے کہ اگر حکمران مافیا نے خیبر پختوں خواہ جہاں پی ٹی آئی اکثریت سے الیکشن میں جیت کر صوبائی حکومت بنانے جارہی ہے اور بلوچستان جہاں کئی دھائیوں سے آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں اسلام آباد سے زمینی فاصلہ پر زیادہ دور نہیں ہیں۔
خیبر پختون خواہ (کے پی کے) کے صوبہ کا میں جو نیچے منظر پیش کرنے جارہا ہوں ، اس کو خارجِ امکان قرار نہیں دیا جا سکتا!
آج کے پی کے میں پی ٹی آئی (تحریک انصاف) کی اکثریت ہے۔ اگر کمپنی نے کے پی کے میں مزید ظلم، جبر اور تشدد جاری رکھا اور آگ و خون کا میدان سجایا ۔تو صرف کے پی کےکے غیور پٹھانوں کی علحیدگی کی تحریک کی گونج اسلام آباد تک سنی جائے گی۔ عمران خان نے کے پی کے کے عوام کے لئے اپنے دور حکومت میں تعلیم، پولس، اور صحت کے شعبوں میں انقلاب برپا کیا۔ جس سے کے پی کے کے غیور پٹھان عمران خان کے شدائی ہوگئےاور عمران خان کو مرشد کہنا شروع کر دیا۔ آج کے پی کے کے عوام عمران خان کے لئے جان دینے کو تیار ہیں۔ بندوق اٹھانا انِ کا کلچر ہے۔ لحاظہ کمپنی فوج کے ذریعہ انکو دبانے کی کوشش نہیں کر سکتی اور اگر ایسا کیا گیا تو جو پٹھان آج پاکستان کا جھنڈا لیکر کھڑے ہوئے ہیں دیر نہیں لگے گی کہ مشرقی پاکستان کی عوام کی طرح یہ کے پی کے کی آزادی کا نعرہ لگا دیں۔ غیر ملکی پاکستان دشمن طاقتیں پہلے ہی گریٹر افغانستان کی باتیں کرتی ہیں جس میں ایک مرتبہ پھر بھارت کردار ادا کر سکتا ہے مگر اس سے خطرناک عمل طالبان کا ہوگا۔ فوراً ہی طالبان بھارت کی سرپرستی میں پٹھانوں کا ساتھ دینے کے لئے سرحد پار کرکے آ کھڑے ہونگے ۔ پھرنا ہی کے پی کے محفوظ رہے گا اور نا ہی اسلام آباد مستحکم ۔
کمپنی فوری طور پر جعلی مینڈت والی مسلم لیگ (ن) کے حوالے پنجاب دینے جارہی ہے، اور پاکستان کی بدنام زمانہ اور الیکشن میں ہاری ہوئی مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلی بنانے جارہی ہے۔ پنجاب میں دھاندلی کے ذریعہ مسلم لیگ (ن) کی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کیا جارہا ہے اور ایک جعلی حکومت کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر مسلحط کیا جارہا ہے۔ کمپنی کا خیال ہے کہ فوری طور پر مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں حکومت قائم کرکے اور مریم نواز کو وزیر اعلی بناکر پنجاب میں طاقت کے ذریعہ مخالفین کی مہم کو کچل دیا جائے گا۔ لحاظہ انِ حالات میں سب سے بڑا امتحان پنجاب کے محب وطن عوام کا ہے۔ آج پاکستان کی سلامتی انکے ہاتھ میں ہے۔ کیا پنجاب کی عوام کسی بھی جعلی حکومت کو تسلیم کریگی اور اسکے خلاف سڑکوں پر آکر بھرپور تحریک چلائے گی ؟ اسِ کا امتحان بس اب شروع ہے!
کراچی سمیت صوبہ سندھ پہلے ہی آصف علی زرداری اور اسکی پیپلز پارٹی کے کنٹرول میں ہے۔ متحدہ قومی مومنٹ یعنی کیو ایم (پاکستان) کے نمائندوں کو جعلسازی سے کمپنی نے الیکشن میں ۱۸ سیٹیں دلوادیں تاکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ لین دین میں آسانی ہو۔ الطاف حسین کے بعد اب کیو ایم پاکستان کے پاس مہاجروں کا مینڈٹ نہیں ہے۔ اکثریت میں سندھ کے شہری علاقوں کے مہاجروں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دئیے جس میں الیکشن کمیشن نے جعل سازی کی۔ یہاں بھی کمپنی نے اپنی منصوبہ بندی کے ساتھ ایم کیو ایم کےنمائندوں کو الیکشن میں جِتایا تاکہ کراچی اور حیدرآباد میں کسی بھی ممکنہ مزاحمت کو روکا جا سکے۔بد نام زمانہ ، آصف علی زرداری، جس کو آسٹریلیا کے سیاسی حلقوں میں بھی مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے ، ایک مرتبہ پھر صدارت کی کرسی پر بٹھایا جارہا ہے۔ تاکہ جب جعلی پارلیمنٹ سے فلسطین کو تسلیم کرنے، قادیانیوں کو انکی تبلیغ کرنے کی اجازت دینے، کشمیر پر پالیسی تبدیل کرنے اور بھارت کے ساتھ دوستانہ رابطے قائم کرنے اور پاک بھارت سرحد کو کھولنے کی پارلیمنٹ سے قانون سازی کے ذریعہ منظور کراکے صدر زرداری سے اس پر مہر لگوائی جائے۔لحاظہ یہ سب فراڈحکمت عملی اور منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ کمپنی کے مقاصد کاسندھ میں عملی جامہ پہنانے میں آصف علی زرداری برابر کا شراکت دار ہے جس سے سودے بازی یہ کی گئی ہے کہ سندھ کے مالک تم ہمیشہ کے لئے رہو گےاور تمھارے خلاف کسی بھی مہم کو فوج کامیاب نہیں ہونے دیگی۔ اب سندھ کو پاکستان کے ساتھ رکھنے میں سندھ کے پاکستان قوم پرستوں کو کھڑا ہونا پڑیگا۔ اسِ سیاسی عمل میں سندھ میں حروں کے روحانی پیشوا پیر صاحب پگارا کا عمل بہت اہم کردار کریگا۔
بلوچستان پہلے ہی پاکستانی فوج کے لئے نو گو ایریا بنا ہوا ہے۔ بلوچستان میں جس طرح سے پچھلے ستر سالوں میں ظلم و تشدد برپا کیا گیا۔ جس طرح سے انکے بچے ، بوڑھوں اور جوانوں کو غائب کرکے ہلاک کیا گیا، بلوچستان میں آزادی کی تحریک زور پکڑتی جارہی ہے۔ عمران خان نے بلوچستان کی مظلوم عوام کو مین اسٹریم میں لانے کی بھرپور کوشش کی۔ تحریک انصاف بلوچستان میں مقبول جماعت بن رہی تھی۔ حالیہ انتخابات میں بھی دھادندلی سے تحریک انصاف کے آزاد نمائندوں کو ہرایا گیا۔ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو ایران اور بھارت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ لحاظہ کمپنی کی خود غرض اور غیر ملکی آقائوں کی مرضی کو بلوچستان میں مسلحط کرنے کی کوشش کی گئی تو بلوچستان میں آزادی کی تحریک چلانے والے کامیاب ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ عمران خان نے کے پی کے اور بلوچستان میں امریکی اڈے دینے پر صاف انکار کیا تھا۔ عمران خان کی حکومت کی برطرفی یہ بھی ایک اصل وجہ تھی۔
اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو ویسے بھی آج کا پورا بلوچستان آزادی کے وقت پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔ موجودہ قلات ڈسٹرک کے ۱۹۴۸ میں خان آف قلات سے زبردستی قلات کو پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ پاکستان کی فوجوں نے قلات پر حملہ کیا ، خان کو گرفتار کیا اور پھر زبردستی الحاق پر دستخط کرائے اور پھر ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ کو قلات کوبلوچستان پاکستان میں شامل کیا گیا۔ اسی طرح سےمکران کا علاقہ گوادر مکران کا حصہ نہیں تھا، گوادر کو سرکاری طور پرستمبر ۱۹۵۸ کو عمان سے اسکندر مرزا نے تین ملین پونڈ میں خرید کر مکران میں شامل کیاتھا۔ ایران آج بھی یہ دعوی کرتا ہے کہ بلوچستان در اصل ایران کا صوبہ ہے۔ بلوچستان صوبہ کا ایک حصہ ایران میں ہے ، جو کہ ایرانی بلوچستان کا صوبہ ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کو ایک کمپنی کی طرح چلایا ہے۔ ریاست اور عوام کا مفاد بالا طاق رکھ کر، عوام سے جھوٹ و فریب کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے جس طرح بھی ممکن ہوا ملک کی دولت سے اپنے بیرونِ ملک اکاونٹس اور اثاثے بنائے۔ آج پاکستان کے جرنیلوں، ایجنسیوں کے سربراہوں، عدالتوں کے منصفوں اور بیوروکریٹس کے اربوں مالیت کے اثاثے مغربی دنیا میں موجود ہیں۔ لحاظہ یہ سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں کہ یہ کیوں مغربی ایجنڈے کو پاکستان میں انجام دیتے ہیں۔ کیوں انہوں نے قیامِ پاکستان سے آج تک ملک کو برباد کرنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی۔ آج پاکستان کی عوام اور ریاست کا خزانہ مالی طور پر خسارہ میں ہے، ریاست بیرونی قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے، کمپنی ریاست کے اثاثے بیچ رہی ہے۔ اگر پاکستان مالی طور پر ختم ہو جاتا ہے، ملک میں بھوک و ننگ جرائم کو مزید جنم دیتی ہے اور حکومت مکمل طور پر ناکام ہو جاتی ہے توکمپنی کے یہ مالکان اپنے آقائوں کے ملک میں لوٹ جائیں گے جو ان کو پناہ دیں گے، اور پاکستان کی عوام کو دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائیگا۔
اگر پاکستان کی عوام کمپنی کے منصوبوں کا ناکام بنانا چاہتی ہے اور پاکستان کو قائم رکھنا چاہتی ہے تو انقلاب کے لئے سڑکوں پر نکلنا ہوگا، جانوں کے نظرانے دینے ہونگے تاکہ آنے والی نسل پاکستان میں آزادی کے ساتھ اور اپنے بنیادی حقوق کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔
سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
۲۴ فروری ۲۰۲۴