:سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
کئی لوگوں نے مجھے پیغام دیا کہ آپ کا پاکستان کے موجودہ حالات پر حال ہی میں کوئی تجزیہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر نہیں دیکھا۔ بات یہ ہے کہ اب مزید کیا لکھا جائے اور کہا جائے انُ بیمار جسم اور بیمار ذہن لوگوں پر جن کے کالے کرتُوتُوں کی طاقت کے آگے پاکستانی اسٹیٹ مجبور ہے، اور جن پر میں اور میرے جیسے کئی اور تجزیہ نگار بار بار وہی چیز لکھ چکے ہیں اور پھر لگتا یوں ہے کہ کسی بہرے کے آگے کوئی درد بھرا گیت سنایا جا رہا ہے۔
پاکستانی عوام کچھ زرداری، کچھ نواز شریف، کچھ الطاف حسین، کچھ مولویوں اور کچھ گینگسٹرز کے ذہنی اور جسمانی غلام بن چکے ہیں۔ اِس پر مزید افسوس کا مقام اور پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانی فوج بھی مصلحتوں کا شکار نظر آتی ہے۔ جنرل راحیل شریف کیطرف درد مند پاکستانی امید لگائے بیٹھے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ماضی میں سابقہ فوجی جرنیلوں سے محبِ وطن پاکستانی اقتدار سنبھالنے کی منت سماجت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی بربادی کی کہانی پچھلے چالیس سالوں سےدائرو ں میں گھوم رہی ہے جس کے مرکزی کردار وہی ہیں۔
یہ وجہ نہیں کہ جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگانے والے اسِ بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ ماضی کی حقیقت کو جانتے نہیں کہ اسیِ پاکستانی جمہوریت اور اسکے کرتا دھرتا عناصر ہی کی بدولت پاکستان دو لخت ہوا کیونکہ اسِ پاکستانی جمہوریت کے کرتا دھرتا ہی پاکستان کے مجرم ہیں، انِہوں نے پاکستانی اسٹیٹ کو نقصان پہنچایا ہے ، ملک کا خزانہ لوٹ کر ذاتی سرمایہ کاری دوسرے ممالک میں ہے۔جو کسی بھی طرح ملک سے غداری کے جرم سے کم نہیں، جو لوگ جیلوں میں یا پھانسی کے پھندے پر لٹکائے جانے چایئے تھے وہ ملک کی قسمت کے رکھوالے ہیں۔ یہ وہ چند عناصر اور خاندان ہیں جو پاکستان کا پاسپورٹ استعمال کرکے پاکستان چھوڑ کربھاگے ہیں اور پھر مغرب میں اپنی جائدادیں بنائیں ہیں وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ایجنسیوں کے ساتھ رشتے قائم کئے ہیں۔ پاکستان کے حصے بکرے کرنے کے پلان تیا ر کیے ہیں اور پھر اپنے آپ کو پاکستان اور پاکستان کے ہمدرد کہلاتے ہیں۔ لیکن انِ پاکستان کے مجرموں پر کیوں لان تان کی جائے جب کہ اِن کے لاکھوں مداح پاکستان میں اِن پر جان نثار کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ پاکستان کی عوام ایک بریانی کی پلیٹ یا ایک نسلی نعرہ کے پیچھے اِن کو ووٹ دیتے ہیں اور پھر اپنی زندگی کے مسائل کا الزام پاکستان پر ڈالتے ہیں۔
آج پاکستان کا وزیر اعظم پاکستان میں کم اور پاکستان سے باہر زیادہ رہتا ہے۔ ساری دنیا میں اپنے بزنس امپائر کو پھیلانے میں مصروف ہے۔ ملک کا سابقہ صدر آج برطانیہ اور امریکہ میں بیٹھ کر ایک مرتبہ پھر حکومت کرنے کے پلان پاکستان کے دشمنوں مل کر بنا رہا ہے۔ انِ ذہن کے بیمار عناصر کے پیٹ کبھی بھی نہیں بھریں گے کیونکہ انکی بیماری ہی یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جب تک زندہ ہیں پاکستان اور پاکستانی عوام پر قابض رہنے کے لئے ہی زندہ ہیں۔ الطاف حسین، نواز شریف، آصف زرداری یا کوئی اور ان سب کی جسمانی اور دماغی کیفیت دیکھ کر کون ذہ شعور انسان کہ سکتا ہے کہ یہ ذہنی طور پر ٹھیک ہے۔ یہ دنیا میں پاکستان کا مزاق بنانے کا سازو سامان ہیں اسی لئے یہ پاکستان کے دشمنوں کے لئے قیمتی اثاثہ ہیں۔
آج رونے کا مقام ہے کہ پاکستان کی واحد بین الاقوامی ائرلائن جس کا شمار ایک زمانہ میں دنیا کی بہترین ائر لائنز میں ہوتا تھا برباد کرکے کوڑیوں کے دام فروخت کرنے کے نام پر ختم کی جارہی ہے تاکہ اپنی ذاتی ائرلائن پاکستان میں متعارف کرائی جا سکے۔ آج پاکستان کا ہر بڑا ادارہ بربارد ہو چکا ہے، اور یہ وہی گیم کا پلان ہے کہ پاکستان کی اکائی اور اسٹیٹ کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ پھر یہ ہی پاکستان کو تقسیم کرنے کی وجہ بن سکے۔
اگر آج ایک مرتبہ پھر فوج نے مصلحت یا بیرونی طاقتوں کے ڈر سے دیر کی تو اب شاید پاکستان کو دوبارہ پٹری پر نہ ڈالا جا سکے۔ لحاظہ راحیل شریف آپ کو نواز شریف کو اپنے ساتھ جیپ میں عزت کے ساتھ بیٹھا کر خود ڈرائیور کا کردار ادا کرنے کی بجائے انِ چوروں کو خود ڈرائیور بن کر کال کوٹری میں ڈالنا چائیے اور پھر کھلی عدالت میں ان پر روزانہ کی بنیاد پر پاکستان سے غداری کے مقدمات چلانے چائیے۔